(ایکسکلوزیو نيوز انٹرنیشنل ۔ENI ۔ کی سپیشل رپورٹ)
HEC کی موجودہ پالیسی کے مطابق دُنیا کی تقریباً25000 یونیورسٹیز میں سے ٹاپ200 یونیورسٹیز کے لیئے کوالیفائی کرنے والے پی ایچ ڈی کے مُنتخب طلباء و طالبات کو 6 مہینے کی فیلو شپ کے لیئے فنڈز مُہیا کرتا ہے اسی پروگرام سے سینکڑوں مُنتخب طلباء و طالبات بیرون ممالک کی ٹاپ یونیورسٹیز میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے نا صرف اپنا بلکہ پاکستان کے مُستقبل کو سنوارنے میں بھی مرکزہ کردار ادا کرتے ہیں۔ہایئر ایجوکیشن کمیشن کی موجودہ پالیسی کے تحت ایک پی ایچ ڈی اسکالر داخلے کے دو سال بعد اس سہولت کے لیئے کوالیفائی کرلیتا ہے اور اُس کے پاس ڈیڑھ سال کی مہلت ہوتی ہے جس میں وہ بیرونی ممالک کی یونیورسٹیز میں فیلو شپ کے لیئے اپنا پروپوزل بھجوا کر متعقلہ یونیورسٹی کے تمام تر قوانین کے مطابق پورا اُتر تے ہوئے اپنے آپ کو موزوں ثابت کرتا/ کرتی ہے۔
اگرچہ بیرون ممالک فیلو شپ کے لیئے HEC کا فنڈ مُنتخب اسکالر کی تمام ضروریات پوری نہیں کرتا اور باقی ماندہ رقم کا بندوبست اسکالرز کو خود کرنا ہوتا ہے جس کے لیئے اُسے متعلقہ یونیورسٹی کو یہ بھی ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ معاشی طور پر اتنا مُستحکم ہے کہ اپنے متعقلہ یونیورسٹی میں دورانیے کے اخراجات اُٹھا سکتا ہے، تاہم پھر بھی ضروت مند اسکالرز کے لیئے یہ ایک بہت بڑی معاشی سپورٹ ہوتی ہے۔ بیرون ممالک سلیکشن کے لیئے عمومی طور پر ایک اسکالر کو تین سے چھ ماہ لگ جاتے ہیں گویا اس معاملے میں سلیکشن اور فنڈز کی فراہمی کے ساتھ وقت کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ HECکے اس اسکالرز سپورٹ پروگرام میں Bactch-54 تک تو معاملات بہترین انداز میں چلتے رہے لیکن اس کے بعد HEC کی خراب مینیجمنٹ کی وجہ سے جولائی 2023میں جن اسکالرز نے اپنے انٹرویو کے لیئے اپنے تمام ڈاکو منٹس HEC میں جمع کروائے اُن کو HEC نے جولائی 2024 میں انٹرویو کے لیئے کال کیا، گویا اسکالرز کا انتہائی قیمتی ایک سال محض HEC کی اس کال کے انتظار میں ضائع ہوگیا۔
گذشتہ 14 ماہ سے HEC نے کسی ایک بھی اسکالر کو کوئی فنڈ جاری نہیں کیا اور اگر یہی سلسلہ رہا تو مُںتخب اسکالرز میں Batch-55/56 کے اسکالرز HEC کی اس پالیسی اور فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے ڈگری کے دورانیے کے لحاظ سے ویسے ہی ڈس کوالیفائی ہوجائیں گے اور مزید Batch-57 کے اسکالرز کا مُسقبل بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ اور اب یہ خبر ہے کہ HEC اس سلسلے میں کوئی نئی پالیسی متعارف کروانے جارہا ہے اس میں کیا ہوگا یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے۔ موجودہ صورتحال پراجیکٹ ڈائریکٹر IRSIP کاموقف جاننے کے لیئے جب “ایکسکلوزیو نيوز انٹرنیشنل کے چیف ایگزیکٹیو افسر ” نے IRSIP کے ڈائریکٹر “مسٹر جہانزیب صاحب” سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنا موقف یہ کہہ کر دینے سے انکار کردیا کہ وہ “سرکاری افسر ہونے کے ناطے میڈیا سے ڈائریکٹ بات نہیں کرسکتے لہذا HEC کی میڈیا ٹیم سے رابطہ کیا جائے جس پر جب میڈیا کے انچارج “مسٹر وسیم صاحب” سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے چیف ایگزیکٹیو کو بالااحکام سے ایک دو دن میں اس موضوع پر واضح موقف لیکر دینے کی یقین دہانی کرائی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ “مسٹر جہانزیب صاحب” نے اپنا مؤقف ENI کو دینے سے تو معذرت کرلی مگر انہوں نے اسکالرز کے ایک واٹس ایپ گروپ میں مُتاثرہ اسکالرز سے ڈائریکٹ بات کرکے بتایا کہ یہ “معاملہ فنڈرز کی عدم دستیابی کی وجہ سے لٹکا ہوا ہے اور نئی پالیسی ابھی فائنل نہیں ہوئی اور پالیسی کے فائنل ہونے کے بعد اس کی ایڈورٹائزمنٹ کی جائے گی نیز اس پالیسی سے مُنتخب اسکالرز کو کینسل نہیں کیا جائے گا اور نہ اُنہیں کوئی نقصان ہوگا۔” انہوں نے مُتاثرہ اسکالرز کو “رام” کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ سن 2005سے یہ پروگرام کے ساتھ مُنسلک ہیں اور وہ مُتاثرہ اسکالرز کا اس معاملے پر بھرپور ساتھ دیں گے۔” لیکن اگر HECدوبارہ اس کی ایڈورٹائزمنٹ کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے دورانیے کی وجہ سے Batch56-57 اس سے مُتاثر ہوں گے۔
پراجیکٹ ڈائریکٹر صاحب کُچھ بھی کہیں لیکن ENI کو باوثوق ذارئع سے خبر ملی ہے HEC میں فنڈز کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور بالفرض ان کا یہ موقف مان بھی لیا جائے تو پھر بھی اسکالرز کی ایک بڑی تعداد فنڈز کی ریلیز میں تاخیر کی وجہ سے اس سہولت سے فائدہ اُٹھانے سے ویسے ہی محروم ہوجائے گی۔ اسی طرح جب HEC نے اپنی پرانی پالیسی کو Revise کرکے موجودہ پالیسی متعارف کروائی تھی اُس میں اسکالرز کے پاس دستیاب وقت میں سے چھ ماہ پہلے ہی کم کردیئے تھے اور اسکالرز کا موقف تھا کہ سلیکشن پراسیس کے ساتھ HEC کی وجہ سے پیدا ہونے والی تاخیر کہ وجہ سے اسکالرز کو مُیسر ایک سال کاعرصہ کم ہے لہذا اسے دوبارہ ڈیڑھ سال کیا جائے۔ ENI کے چیف ایگزیکٹیو افسر نے جب اس گروپ میں شامل مُتاثرہ اسکالرز سے بات کی تو وہ HECکے اس رویہ اور موجودہ پالیسی پر نا صرف تمام اسکالرز پھٹ پڑے بلکہ انہوں نے نئی پالیسی کے غیر یقینی نتائج پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا اور انہوں نے فنڈز کی عدم دستیابی کی بجائے اُن کے مُسقبل کے ساتھ کھلواڑ کا ذمہ دار ہایئر ایجوکیشن کی مینجمنٹ اور پالیسی کو قرار دے دیا۔ HEC کے ستائے ہوئے مُتاثرہ اسکالرز نے حکومتی سطح پر آواز اُٹھانے کے لیئے ہر طرح کے اقدامات کا عادہ کیا۔ ENI کے نمائندہ کیساتھ چند اسکالرز نے بیرونی ممالک کے سُپروائرز کے ساتھ اپنیcorrespndence بھی شیئر کیں جس میں بیرونی ممالک کے سُپروائزر نے HEC فنڈڈ اسکالرز کو یہ کہہ کر سُپروائز کرنے سے انکار کردیا کہ HEC فنڈڈ اسکالرز کا ہمیں اعتبار نہیں کہ انہیں بروقت فنڈز ریلیز ہوں گے بھی یا نہیں۔ بیرونی ایکڈیمیا کا اس طرح کا موقف ناصرف ارباب اختیار کے لیئے لمحہ فکریہ ہے بلکہ پاکستان کی بدنامی کا باعث بھی ہے۔
سب سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا اس مُلک کے سب سے اعلٰی ترین ذہن رکھنے والے ان اسکالرز کی ساری محنت اور کیریئر HEC کی پالیسی، مینجمنٹ کی خرابی یا فنڈز کی عدم دستیابی کی بنا پر ضائع کردیا جائے گا؟ اس معاملے پر وزیر تعلیم، وزیر خزانہ اور وزیر اعظم کو دخل اندازی کرکے فوری طور پر فنڈز کی ریلیز کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ مینجمنٹ کی خامیوں کا نوٹس لے کر اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیئے اور ساتھ ہی نیب اور ایف آئی جیسے اداروں سے انکوئری بھی کرانی چاہیے۔ بلا شُبہ یہ اسکالرز مُسقبل میں تمام شعبوں میں قوم کی تعمیروترقی میں ایک اہم رول پلے کرنے والے ہیں اور ان سے زیادتی قوم کے مُستقبل سے کھیلنے کے مُترادف ہے۔