![]() |
رپورٹ۔پرویزبھٹی |
رپورٹ: پرویز بھٹی
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) کہ زیر اہتمام پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA) کے اشتراک سے بدھ22مئی2024ء کو کراچی میں خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم اور اس کے نتیجے میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کے حوالے سے ایک اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔
اجلاس میں CPLC، محکمہ پولیس کے افسران، وکلا،مختلف سماجی تنظیموں کے سربراہان،کراچی پریس کلب کے عہدے داران، سینیئر جرنلسٹس اور سول سوسائٹی کے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
اجلاس میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر پرسن اسد اقبال بٹ نے کہا اسٹریٹ کرائم کے خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے اضافے کے
پیش نظر حکومت اپنا کردار ادا نہیں کر رہی جو اسے کرنا چاہیے اور وہ اپنے اپ کو بری الزمہ سمجھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان جرائم کی ایک بڑی وجہ بے روزگاری، غربت، مایوسی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے جس کی وجہ سے
نوجوان طبقہ جرائم کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت سنجیدگی سے اسٹریٹ کرائم جیسی لعنت پر فوری طور پر قابو پانے کے لیے مناسب طریقہ کار واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئر پرسن سندھ قاضی خضر حبیب یہ کہا کہ سندھ حکومت اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ترجیحی بنیادوں پر اسٹریٹ کرائم کو روکنے کے لیے اپنی حکمت عملی کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔نوجوان طبقہ اپنی تعلیم اور روزگار کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو روزانہ کی بنیاد پر ان کی موٹر سائیکلیں اور موبائل چھین لیے جاتے ہیں اور اکثر و بیشتر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یہ نوجوان طبقہ مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے اپنے خاندان سہارا ہوتے ہیں۔ شہریوں کو تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے میں
وہ بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔
ایس ایس پی شیلا قریشی نے کہا کہ اسٹریٹ کرائم ایک بڑا چیلنج ہے اور پولیس اس سے نمٹنے کی پوری کوشش کر رہی ہے پولیس کو افرادی قوت کی کمی اور دیگر وسائل کی کمی جیسی چیلنجز کا سامنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو بھی بطور شہری اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے آس پاس کے مشکوک افراد کے بارے میں پولیس کو اطلاع دینی چاہیے۔
بی بی سی اردو کے نمائندہ ریاض سہیل نے کہا کہ پولیس اور دیگر لا انفورسمنٹ اداروں کا موقف ہے کہ میڈیا اسٹریٹ کرائم جیسے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جبکہ جرائم کا تناسب اتنا تشویش ناک نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ پولیس اسپیشل فورسز اور قوانین ہونے کے باوجود اسٹریٹ کرائم جیسے جرائم پر قابو نہیں پایا جا رہا پولیس اسٹریٹ کرائم پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے لوگوں کا پولیس پر بھروسہ نہیں جس کی وجہ سے بہت سے واقعات رپورٹ نہیں ہو پاتے اور مختلف وارداتوں کے وقت چشم دید گواہ عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے مجرم جلد رہا ہو کر دوبارہ اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں کو جاری رکھتے ہیں مزید برآں وزرا، ججز اور دیگر سیاست دانوں کی سیکیورٹی کے لیے بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے پبلک کی سیکیورٹی کے لیے نفری کا ہمیشہ فقدان رہتا ہے۔
ڈاکٹر ثنا یاسر نے کہا کہ اسٹریٹ کرائم کے متاثرین ان کے اہل خانہ ذہنی طور پر پریشان اور ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں جو ذہنی صحت کے دیگر مسائل جیسے صدمے اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا باعث بن جاتے ہیں ایسے افراد کو دماغی ماہرین سے مشورہ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ پولیس کے پاس ایسی کوئی سہولت میسر نہیں۔
وائس آف پاکستان جرنلسٹس یونین سندھ کے صدر اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ایگزیکٹو ممبر پرویز بھٹی نے کہا کہ کراچی کی 108 تھانوں ہیں اور ہر تھانے کی حدود میں لگ بھگ ڈھائی سے تین لاکھ کی آبادی ہے اور کراچی میں پولیس کی نفری 30 ہزار ہے۔جس میں سے %50 پولیس نفری مختلف سیاست دانوں، ججز، مختلف وزرا اور دیگر پروٹوکول کے لیے تعینات ہوتی ہے۔
سیف سٹی پروجیکٹ صرف پوش علاقوں تک محدود ہے جبکہ اسٹریٹ کرائم کو کم کرنے اور اسٹریٹ کریمنل کو پکڑنے میں CCTV کیمرے انتہائی ضروری ہے۔ بالخصوص ان علاقوں میں جہاں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں بہت زیادہ ہیں۔ چند سال قبل پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا تھا یہ تمام موٹرسائیکلوں میں ٹریکر لگائے جائیں گے اوراسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہونے والے افراد کی تھانہ لیول پر مانیٹرنگ کی جائے گی اور کراچی کے تمام ایس ایچ او صاحبان کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنے تھانے کی حدود میں مختلف تاجر برادری اور علاقے کے ذمہ داران سے ایک مشاورتی میٹنگ کا انعقاد کر کے اس کی رپورٹ اپنے SSP اور DIG کو بھیجیں گے۔ لیکن پولیس ڈیپارٹمنٹ نے عملی طور پر ایسا کچھ بھی نہیں کیا جس کی وجہ سے اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔